Skip to main content




آج بلال
 بہت خوش تھا ، کیوں کہ آج  اسکی وہ ہاتھ سے بنائی ہوئی
 کتاب مکمل ہو چکی تھی جس پر اس نے
 سڑک سے متعلق  نشانات اوراشارے بنائے تھے 
اور ساتھ ان کی استمال کی بھی نشاندھی کی تھی.
وہ کافی عرصے سے اس پر کام کر رہا تھا 
اور اس نے اس پر محنت بھی بہت کی تھی
وہ اسکول سے آ کر اپنا پڑھائیکا کام ختم کرتا اور اس کتاب کی تیاری میں لگ جاتامحتلف اخبار اور روڈ سیفٹی کی کتابوں سے اس نے سارےنشانات اور اشارے سیکھے اور پھر رنگوں کی مدد سے بلکل ویسے ہی نشان اور اشارے بنائے
اور اس کے ساتھ ہی اس کو بہت ساری معلومات بھی مل چکی تھی 
اس کی امی جی نے اس سسلے میں کافی مدد کی 
یہ اس کی سب سے پسندیدہ کتاب تھی
 اور وہ خوشی
 خوشی سب کو دکھا بھی رہا تھا
. بابا، دادا ابو، بارے بھائی سب نے اسکی بہت تعریف بھی کی تھی.
اب وہ چاہتا تھا بس جلدی سے صبح ہو جائے
 اور وہ یہ کتاب اسکول لے کے جا سکے
تا کہ وہ استاد اور بچوں کو بھی  دیکھا   سکے
اس خوشی میں اس کو نیند بھی نہیں آ رہی تھی
امی اس کی اس خوشی کو دیکھہ رہیں تھیں لیکن 
 اگلے دن عبدللہ بہت اداس واپس آیا
....     
حضرت بلال خبشی


حضرت بلال حبشہ شہر کے رهنے والے تھے اور ایک غلام تھے

بچو آپ جانتے ہیں ک اس دنیا میں بہت سارےملک 
، علاقےاور شہرہیں
اور اسی طرح ہر علاقے اور ملک کے رہنے والی لوگ  
محتلف قسم کے ہیں جیسا کہ وہاں ا لگ الگ زبا نیں بولتے ہیں
 ان کے لباس بھی الگ الگ  ہیں. اسی طرح مختلف لوگوں 
کی شکلیں، رنگ اور قد بھی ایک جیسے نہیں ہیں لکن اس کا  یہ مطلب نہیں ہے
 کہ کسی علاقےیا کسی  رنگ اور شکل کے 
 لوگ زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے لوگ کم اچھےبلکہ
سب لوگ برابر ہیں... سب کو اللہ نے بہترین بنانا ہے
اور ہر انسان  کو بہت ساری خوبیاں دے کر پیدا کیا ہے
 اللہ نے  ہر ایک کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے
تا کہ سب ایک دوسرے کی خوبیوں سے فائدہ حاصل کر سکیں
آج میں اپ کو حضرت محمد صلو علیہ کے ایک 
صحابی کی کہانی سناتی ہوں 
جو عرب کے  رهنے والے نہیں تھے اسی لیے ان کا رنگ اور شکل عرب کے لوگوں جیسی نہیں تھی

حقوق العباد

والدین کے فرائض

تعلیم و تربیت والدین کی ذمہداری ہےوہ اس ذمہ داری کو

       کیسے پورا کریں 

بچوں کی تعلیم ور تربیت والدین پر فرض  ہے .اسلام نے والدین پر اولاد  کے جو حقوق واجب کیے ہیں.  وہ یہ ہیں



١. اچھا نام رکھنا ٢.   اچھی تعلیم و  تربیت دینا ٣. اور اچھی جگہ شادی کرنا   

تعلیم  کے لیےآج بہت سارے ادارے بن چکے  ہیں جہاں ہم اپنے بچوں کو بھیجتےہیں  تو وہ دنیا کے سآرے علوم و فنون سیکھتا ہے جو اس کو یہ سیکھا دیتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ کمایا جا سکتا ہےا ور آسائشیں حاصل کر کے اپنا معاشرتی مقام بلندکیا جا سکتا ہے لکن اس ساری دور بھاگ میں انسان یہ بھول گیا ہے ک تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہیں...   اب وہ چند لوگ جو بچوں کی تربیت کو اہمیت دیتے ہیں ان میں سے بھی بعض ایسے ہیں جوصرف سوری بولنے، شکریہ بھولنےا ور زیادہ سے زیادہ جھوٹ ، چوری، اور تمیز سے بات کرنے کو ہی تربیت کہتے ہیں... جب کہ اسلامی نقطہنظر سے تربیت کے معنی ہیں اخلاق اور تہذیب سیکھنا   یہ اس انسان کے والدین اور عزیزوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کی اچھی تربیت کرکے اس کو خوش بخت بنائےیا اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دیتے ہوئے اس کی بری تربیت کرکے اس کو بد بخت بنائیں۔ تربیت کرنے کے لئے بھی سیرت اور نمونہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس نمونہ عمل کو سامنے رکھ کر اور اس کی روش وفرامین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کی تربیت کرسکے ۔ خدا کے فضل سے مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے خدا نے نمونہ کی نشاندہی کر دی ہے لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ(احزب ٢١) تمہارے لئے رسول اللہؐ بہترین نمونہ عمل ہیں ۔رسولؐ نے جن کی تربیت کی ہے ان شخصیات کو دیکھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہو تا ہے کہ آپ نے کتنی بہترین تربیت کی ہے اور ان کی تربیت کی مثا ل دنیامیں نہیں ملتی 
اس کی ذمہداری ماں اور باپ دونوں پر آتی ہے مگرآج کے انسسان کو دنیا کی آسایشوں  نے اتنا غافل کر دیا ہے کہ اس نے آسائشیں مہیا کرنے اور دنیاوی تعلیم کو ہی اپنی ذمہداریسمجھ لیا ہے جب کے تربیتکا مطلب ہے بچے کو ایسا انسان بنانا جس میں صبرہو،اخلاص ہوتوکل ہو،قوت برداشت ہوجو دنیا میںرہتے ھوے بھی دنیا کا نہ ہو،جو  بہادربھی ہو اور دردمند بھی جو حق کے لیے لرنے والا بھی ہو اور معاف کرنے والا بھی ،جس میں شرم اور حیا بھی ہو  کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتا کہ اسکی اولاد غلط راستے پر چلے یا اس کو غلط تربیت ملی... لکن افسوس یہ ہے کہ آج والدین خود ہی غلط اور صحیی کا فرق بھول گے ہیں بس دنیا کے بہاؤکے ساتھ چلے جا رہیے ہیں...... نماز، روزہ، حج زکاتہ ادا کر کے دین مکمل نہیں ہوتا دین مکمل ہوتا ہے اسوہ رسول اپنا کر .. اور  امر بالمعروف ونہی عن المنکر اپنا کر 
یاد رکھیں ہماری اولاد ہمارے لیے صدقہ جاریہ ہے اسے آخرت کے لیےتیار کریں نا کہ دنیا کےلیے والد کی ذمہ داری ماں اور باپ دونوں پر ایک جتنی ہے ماں کی تربیت گود سے شروع ہوتی ہے اور باپ کی انگلی پکڑ کر چلنے سے لے کر با لغ ہونے تک اپنی اپنی ذمہ داری کے بارے میں دونوں ہی اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنا مقام و مرتبہ پہچانیں خود سیکھیں عمل کریں اور اولاد کو سکھائیں کوئی بھی اسکول  یا کالج آپ کے بچے کو ایسی تربیت نہیں دے سکتا جو دنیا اور آخرت دونوں کے لائی کافی ہو... والدین جو سکھاتیں ہیں وہ تا عمریاد رہتا ہے والدین بنننا خوش قسمتی ہے اس سے بھی بری خوش قسمتی ہے کہ اولاد ہماری آخرت میں بہشش کا ذریعہ بن جایے قران میں بیان ہوا ہے کہ  تماری اولاد  ، بیویاںاور مال و دولت تمہارے لیے آزمائش ہیں... اس آزمائشپر پورا اتریں خود علم سیکھیں اور بچوں کوسیکھائیں پوسٹ کو دوسروں کے ساتھ شیرکریں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ حاصل کر سکیں 

                            (ادیبہ انور)
 


کیا ،کیوں، کیسےبچوں کو مطمئن کیسے کریں بچوں کی تربیت اور ہمارا کردار



انسان کی پیدائش کے ساتھ ہے اس کے سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے
- بچہ جب پہلی آواز سنتا ہے  توغوروفکر پیدا ہو جاتی ہے
جب وہ آنکہ کھولتا ہے تو حیران کن نظروں سے اردہ گرد کا جائزہ نا ہے... ایک ایک نقش اسکی آنکہ کے عدسےسے دماغ پر نقش ہو جاتا ہےس کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے


یہ کیا ہے؟
پھر ان تصویروں اور آوازو کے ملاپ سے ایک اگلا مرحلہ آتاہے جب وو سوچتا ہے
یہ کیوں ہے ؟
اور پھر وو چلتنی پھرنے کے قا بل ہوتا ہے اپنے اس تجسس کی کھوج شرو ع کر دیتا ہے. ہر چیز کو پکر کر چھو کر اور دیکھ  کر سمجھنے کی شروعات کرتا ہے
اور جونہی اسکی زبان ساتھ دیتی ہے
اس کے سارے سوال اسکی زبان پر آ جاتےہی-

١. یہ کیا ہے
٢. ایسا کیوں ہے؟
٣. یہ کس نے بنایا ہے؟
٤.کہاں ہے
انسان کی ابتدا سے لے کر آخر تک یہ تجسس ور جا ن لینے کی خواہش ہمیشہ رہتی ہے-
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے بچوں کو ان کے سوالوں کے مناسب جواب کیسے دے جائیں. یاد رکھیں بچے کی ہر ذہنی الجھن ا ور ہر دور کے تجسس کی گرہیں اس کی عمر ور اس کی ذہنی سطح کو مد نظررکھ کر دینا بہت ضروری ہی ورنہ اگر کسی ذہنی الجھن کا اس کو مناسب ا ور درست جواب نہ ملا تو اس کی شخصیت پر بھی اس  کے  برے اثرات مرتب ہوں گےاور بعض دفعہ غلط علم اورغلط معلومات اس کی تربیت اور کردار پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں


ماں اور باپ باغ کے ایسے مالی ہیں جو اپنے ہاتھوں سے پودالگاتے ہیں،اپنےخون اور پسینے سے اس کی آبیاری کرتے ہیں اور صحت تکلیفیں برداشت کر کے اس کو پروان چڑ ھاتے ہیں لکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انکو اپنے ہاتھوں سے لگاے ہوۓ پودوں کی کانٹ چھانٹ بھی کرنی پڑتی ہےاور یہ کانت چھانٹ چوٹی عمر میں ضروری ہوتی ہے کیوں ک جب پودا برا ہو جاتا ہے تو اسکی شاخیں سخت ہوجاتیں ہیں اور ذرا سی سختی سے ٹوٹنے لگتی ہیں

بچے کی تربیت میں ماں کا کردار کردار


بچہ سب سے زیادہ ماں کی قریب ہوتا ہے ماں کا رویہ اور کردار سب سے زیادہ بچے کی تربیت پر اثر انداز ہوتاہے
اوربچہ سب سے زیادہ اسی سے سوال پوچھتا ہے
اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ماں بچے کے ہر سوال کا نہایت تحمل اور سمجھداری سے جواب دے.اس کے لیےماں کو خود بھی ایک با علم اور باشعورفرد بن کر  نئی علمی معلومات اور دینی تربیت کا سیکھنا ضروری ہے
ماں علم و تربیت کا پہلا ستون ہے . ما ں کو رب نے محبت اور برداشت عطاکی ہے اسی قوت برداشت اور محبت سے سے وو اپنے بچے کو ایک اچھا انسان اور باشعور فرد بنا سکتی ہے.

بچے کی تربیت میں باپ کا کردار 

اکثر بچے اپنے باپ سے بہت زیادہ اثر قبول کرتے ہیں
کیوں کہ باپ گھر کا سربراہ اور حکمران ہوتا ہےاور اس کا رعب اور دبدبہ بھی زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے ک بچے اپنے والد کے جیسا بنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی مرد کا  کیوں کہ حلقہ احباب اور سرگرمیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں. وہ با ہر کے ماحول اور تبدیلیوں سے بھی اگاہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ باپ زیادہ اچھے طریقے سے  بچے کی تعمیر و تربیت میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہےلیکن عملی طورپر دیکھاگیا ہی کہ باپ ساری ذمہ داری ماں پر ڈال دیتے ہیں اور بعض دفعہ بہت زیادہ سختی سے کام لیتے ہیں  جس کی وجہ سے بچے ذہنی طور پر باپ سے دور ہو جاتے ہیں اور اسی  وجہ سے وو سوال جن کا جواب ایک باپ ہی دیےسکتا ہے اور ایسے مسائل جن کی تربیت صرف والد ہے کر سکتا ہی وہ ادھورے رہ جاتے ہیں اور پھر یہ اس بچے کی شخصیت میں ادھورے پن پیدا کر دیتے ہیں

بچے کی تربیت میں ماحول کا کردار

بچے کے تجسس کی کھوج اس کو چوٹی عمر میں ہے کبھی کچن کے دراز کھنگالنے' کی طرف لے جاتی ہے اور کبھی باپ کے جوتے پہن کر چیزوں کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے
ایسے میں گھر کا ماحول ایسا ہونا چاہے جس میں وہ بآسانی چل پھر کر اپنے سوالوں کا جواب ڈھونڈ سکے اور ساتھ ہی بڑھتی ہوئی عمر میں گھر اور گھر کا ماحول دوست، رشتے دار سب بچے کی تربیت میں اثر انداز ہوتے ہیں
اسی لیے گھر اور گھر کا ماحول ایسا ہونا چا ہیے جس میں بچے کی شخصیت نکھرے. اس سلسے میں ذرا سی سختی یا بلاوجہ سے روک ٹوک بچے کہ اس تجسس کی رہ میں رکاوٹ بنتی ہے
جس کی وجہ سے یا تو بچے باغی ہو جاتے ہیں 
اور یا پھر ان کی ذات میں ایسا خلاپیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ معا شرے کے مثبت کردار ادا نہیں کر سکتے
والدین خود دوست بنیں ان کے لیے گھر کا ماحول اچھا  دوست  بنائیں اور  اس سے پہلے ک وو اپنے سوالوں کا جواب  تلاش کرنے کے لیے غلطانداز اور اور طریقہ اپنائیں اگے بڑھ کر ہر وقت انکی مدد کو تیار رہیں ناں کہنے کی بجایے ہر وقت انکے ساتھ رہیں. مشبت جواب اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ان کے ساتھ چلیں.نئےوقت اور  حالات کے تقاضوں کو سمجھیں
تو بچہ خود کو اپ کے قریب کرے گا اور ہر کیوں کا جواب جاننے کے لیے آپ کے پاس ہی آیے گا
آخر میں صرف اتنا ہی کہ جب انسان ذرا سی محنت اور پیا ر سے جانوروں کو سدھا سکتا ہے تو ذرا سی محںت  اور پیا ر ا پنے بچوں کے لیے کیوں نہیں

ادیبہ انور




Comments